2 Kahaniyan In Urdu

Kahaniyan In Urdu

گھر کی قدر (Ghar Ki Qadar)

رات کے دس بجے تھے، علی تیز قدموں سے چل رہا تھا۔ شہر کی روشنیاں اس کے غصے کو کم کرنے میں ناکام تھیں۔ اسکا جھگڑا اپنے والد سے ہوا تھا، وہی پرانی کہانی۔ بڑا گھر چاہیے، زیادہ پیسے چاہیے، نئی گاڑی چاہیے… علی اپنی ضدوں پر بضد تھا۔

ایک ٹریفک لائٹ کے اشارے پر رُک کر اس نے غصے سے گاڑی کی کھڑکی کھولی۔ ٹھنڈی ہوا نے اس کا غصہ تھوڑا کم کیا۔ سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک بوڑھا آدمی کپڑے کی تھیلی اور بوری اٹھائے سڑک پار کر رہا تھا۔ گاڑیوں کی تیز روشنی میں اس کا چہرہ دیکھنا مشکل تھا، بس اتنا سمجھ آ رہا تھا کہ وہ کافی تھکا ہوا ہے۔

لیکن پھر اچانک ایک موٹر سائیکل تیز رفتاری سے آتی ہے اور بوڑھے سے ٹکرا کر آگے گزر جاتی ہے۔ بوڑھا زمین پر گر پڑتا ہے، اس کی تھیلی اور بوری سڑک پر بکھر جاتی ہے۔ کچھ گاڑیاں رُک کر دیکھتی ہیں، لیکن کوئی نیچے نہیں اترتا۔

علی کچھ سوچے بغیر گاڑی سے نکلا اور سڑک پار کر کے بوڑھے کے پاس پہنچا۔ بوڑھا درد سے کراہ رہا تھا، اس کا ایک ٹانگ ظاہر ہے موڑ گیا تھا۔ علی نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور سڑک کے کنارے بیٹھا دیا۔ اس نے بوڑھے کے زخموں کو صاف کیا اور اپنا رومال اس پر باندھا۔ پھر بوری اور تھیلی سمیٹ کر اس کے پاس رکھ دی۔

اس دوران دیگر گاڑیاں بھی رُک گئیں، کچھ لوگوں نے بھی مدد کی پیشکش کی۔ ایک آدمی نے ایمبولینس کو فون کیا۔ علی بوڑھے کے پاس بیٹھا اس سے باتیں کرتا رہا، اس کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ جب ایمبولینس آئی تو اس نے بوڑھے کو اس میں چڑھانے میں مدد کی، پھر پولیس رپورٹ بھی درج کرائی۔

وہ واپس گھر جاتے ہوئے بہت سوچ رہا تھا۔ آج اس بوڑھے کی حالت اس کے جیسے ہی ہو سکتی تھی، اگر وہ سڑک پار کرتے وقت احتیاط نہ کرتا۔ گاڑی، گھر، پیسہ… یہ سب چیزیں اچھی ہیں، لیکن ان کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم کبھی کبھی اپنی اصل خوشیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

گھر پہنچ کر علی نے اپنے والد سے معافی مانگی۔ ان کے درمیان بات ہوئی، سمجھوتہ ہوا۔ اس نے محسوس کیا کہ چھوٹے سے گھر میں، محبت اور سکون کے ساتھ رہنا بڑے سے بڑے گھر میں تنہا رہنے سے کہیں بہتر ہے۔

اگلی صبح جب علی نے بوڑھے کی خیریت پوچھنے کے لیے ہسپتال گیا تو وہ کافی حد تک ٹھیک تھا۔ بوڑھے نے علی کا شکریہ ادا کیا اور کہا، “بیٹا، تم نے نہ صرف میری جان بچائی، بلکہ مجھے میرا گھر یاد دلایا۔ گھر صرف چار دیواریں نہیں ہوتیں، بلکہ پیار، ہمدردی اور انسانیت بھی ہوتی ہے۔”

علی مسکرایا اور اپنے گھر کی طرف لوٹا۔ اس کے دل میں اپنے گھر، اپنے والد اور اپنی زندگی کے لیے پہلے سے زیادہ قدر تھی۔

                   

سپنوں کی اُڑان (Sapno Ki Udaan):2

گاؤں کے باہر کے علاقے میں رہنے والی رانی ایک تجسس سے بھرپور لڑکی تھی۔ اس کا دل ستاروں سے بھرا ہوا تھا، جو آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی خواہش رکھتا تھا۔ روز رات چھت پر لیٹ کر وہ چاند اور ستاروں سے باتیں کرتی، انہیں اپنے خواب بتاتی – ایک پائلٹ بننے کا خواب۔ لیکن اس کا گاؤں، جہاں کھیتی ہی زندگی کا مذہب تھا، رانی کے خوابوں کو ہوا میں اُڑتی ہوئی پتنگوں کی طرح دیکھتا تھا۔

“لڑکیاں پائلٹ نہیں بنتیں،” نانی کہتی تھیں، “ان کا کام گھر سنبھالنا ہے۔”

“پڑھ لکھ کر کیا کرے گی؟” بابا جی فکرمند ہو کر کہتے تھے، “ہمارے پاس اتنا پیسہ کہاں کہ اسے شہر بھیج کر پڑھا سکیں؟”

رانی ہار نہیں مانتی تھی۔ وہ اسکول میں خوب پڑھتی، کتابوں سے اُڑان بھرتی۔ گھر کے کاموں میں نانی کی مدد کرتی، تاکہ انہیں کوئی شکایت نہ رہے۔ پڑوس کے ایک مکینک کی دکان پر جا کر گھنٹوں ہوائی جہازوں کے ماڈل بناتی، ان کی مرمت کرتی۔ گاؤں کے سامنے ہوائی جہاز گزرتے ہوئے اسے دیکھ کر لوگ ہنستے، لیکن وہ ہنسنے والوں کی پرواہ نہیں کرتی تھی۔

ایک دن گاؤں میں ایک ہوائی جہاز اترا۔ ایک خاتون پائلٹ ضروری سامان پہنچانے آئی تھی۔ رانی اسے دیکھ کر حیں رہ گئی۔ اس نے ہمت کرکے اس سے بات کی، اپنا خواب بتایا۔ پائلٹ نے اسے حوصلہ دیا، بتایا کہ محنت سے کوئی بھی خواب پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس نے رانی کو بتایا کہ شہر میں فلائنگ اسکول ہیں، جہاں لڑکیاں بھی پائلٹ بننے کی تربیت لے سکتی ہیں۔

رانی کو ایک نئی راہ ملی۔ اس نے دن رات محنت کی۔ بابا جی کو منانے میں اسے کئی دن لگے، آخر کار ان کی آنکھوں میں اُمید دیکھ کر رانی کو خوشی ہوئی۔ رشتے داروں، گاؤں والوں کے طعنوں کو اس نے اَن سُنا کر دیا۔

شہر جانا آسان نہیں تھا۔ پڑھائی کا خرچ اٹھانے کے لیے رانی نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کام کیے۔ کئی بار ہارنے کا جی ہوا، لیکن وہ ہار نہیں مانی۔ آخر کار، کئی سالوں کی محنت کے بعد رانی ایک پائلٹ بن گئی۔

اس دن جب رانی گاؤں لوٹی، تو پورے گاؤں کا استقبال تھا۔ جس مکینک کی دکان پر وہ ماڈل بناتی تھی، وہاں اب اس کا خود کا فلائنگ اسکول کھل چکا تھا۔ رانی ہوا میں اُڑنے والا ہوائی جہاز نہیں، ہزاروں خوابوں کو اُڑان دینے والی پائلٹ بن گئی.تھی۔ وہ نہ صرف اپنے خواب کو پورا کیا، بلکہ گاؤں کی لڑکیوں کے لیے بھی اُمید کی کرن بن گئی

Ali Ka Angotha Urdu Story | علی کا انگوٹھا

کھوئی گلی (Khoyi Gali)

رات پچھلے پہر تھی، ہوا میں ایک عجیب سی سُرسُراہٹ گونج رہی تھی۔ پرانا شہر سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا، گلیوں میں صرف چند ٹمٹماتی ہوئی گیس کی بتیاں روشنی بکھیر رہی تھیں۔ عمران، تنگ گلیوں کے جال میں گم، اپنا گھر ڈھونڈ رہا تھا۔ اسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہاں کیسے پہنچا، نہ ہی اس گلی کا اسے کوئی علم تھا۔

عمران گھبرا کر اپنا موبائل نکالنے لگا، لیکن سگنل غائب تھا۔ گلیاں تنگ اور کُنگی تھیں، پرانے مکانوں نے انہیں گُھیر رکھا تھا، جیسے چھائے منڈلاتی ہوں۔ ہوا اور بھی تیز ہونے لگی، ٹوٹی کھڑکیوں میں سے عجیب سی آوازیں آنے لگیں۔

اچانک، ایک بوڑھی عورت چھایوں سے نکلی، اس کی آنکھیں گہری گڑھا تھیں اور چہرہ جیسے کسی بھولے ہوئے خواب سے نکلا ہو۔ “بیٹا، راستہ بھول گئے ہو؟” اس نے آواز سسکتی ہوئی پوچھی۔

عمران نے ہاں میں سر ہلایا، “جی، گھر واپس جانا چاہتا ہوں۔”

عورت مسکرائی، اس کی مسکراہٹ میں عجیب سا لرز تھا۔ “آیو میرے ساتھ، میں تمہیں راستہ دکھاتی ہوں۔”

عمران بے بس ہو کر عورت کے پیچھے چل پڑا۔ وہ گلیوں کے ایسے حصوں میں پہنچے جہاں نہ کوئی روشنی تھی، نہ ہی کوئی آواز۔ صرف بوڑھی عورت کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔

اچانک، وہ ایک بڑے سے قبرستان کے سامنے کھڑے تھے۔ بوڑھی عورت رک گئی، قبرستان کی طرف اشارہ کیا اور بولی، “تمہارا گھر وہاں ہے۔”

عمران خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹا، “میرا گھر یہاں نہیں ہوسکتا!”

بوڑھی عورت قریب آئی، اس کی مسکراہٹ خوفناک ہو گئی تھی۔ “لیکن بیٹا، تم تو پہلے ہی یہاں آچکے ہو… اپنی قبر میں۔”

عمران چیخنے لگا، لیکن اس کی آواز اس گلی کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئی۔ اس نے دیکھا کہ بوڑھی عورت کی پُشت سے دو کالے پر لگ رہے ہیں، اس کا چہرہ بھی غائب ہو چکا تھا، صرف دو خالی گُھور رہے تھے۔

عمران بھاگا، پھانس پھول گیا، لیکن جتنی تیز دوڑتا تھا، گلیاں اسی قدر پھیلتی جاتی تھیں۔ قبرستان قریب اور قریب ہو رہا تھا۔

اچانک، چاند بادلوں سے نکل آیا، گلی میں روشنی پڑی۔ عمران نے دیکھا کہ وہ جہاں کھڑا ہے، وہ کوئی گلی نہیں، بلکہ اس کا گھر کا پچھواڑا ہے۔ قبرستان بھی نہیں ہے، صرف ٹوٹی پھوٹی دیواریں ہیں۔

اس نے جھٹ سے پلٹ کر دیکھا، بوڑھی عورت غائب تھی۔ صرف رات کا سناٹا اور ہوا کی سرسراہٹ باقی تھی۔

عمران نے سانس لیا، لیکن اس کا دل اب بھی تیز دھڑک رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس نے موت اور بھول بھلیوں کا سامنا کیا تھا۔ وہ تیز قدموں سے اپنے گھر کی طرف بھاگا، اس رات شہر کی تنگ گلیوں میں کھوئے ہوئے لڑکے کی کہانی ہمیشہ کے لیے گم ہو گئی۔ لیکن عمران یہ رات کبھی نہیں بھول سکے گا، ایک ایسی رات جس نے اسے بتایا کہ موت کتنی قریب ہوتی ہے، اور بھول بھلیوں میں کتنا کچھ گم ہو سکتا

Small Moral Stories In Urdu 2024| ایک جوان عورت کی کہانی

Kahaniyan In Urdu

Leave a comment